Punctuality

10

وقت کی پابندی

وقت کیا ہے ؟ اس کی کیا  اہمیت ہے؟اس پر عمل کرنے سے کیا ملتا ہے؟یہ وہ سوال ہیں جو ہر انسان کے دماغ میں آتے ہیں لیکن  اس کے جواب میں کوئی خاص  دلچسپی نہیں لیتا

وقت ایک قیمتی خزانہ ہے اگر آج ہمارے ہاتھ  سے دولت نکل جائےتو کل کو واپس آسکتی ہے ۔اگر کوئی دوست آج ناراض ہو جائے تو اگلے دن منایا جاسکتا ہے۔آج اگر صحت خراب ہو جائے تو اگلے کچھ دنوں بعد دوبارہ  ٹھیک ہو سکتی ہے۔اگر مکان قدرتی آفات کی وجہ سے آج گر جائے  تو دوبارہ اس کو تعمیر کیا جائے تو سال کے بعد اسی حالت میں واپس تعمیر ہو سکتا ہے۔وقت ایک ایسا قیمتی  خزانہ ہے اگرایک با ر ہاتھ سے نکل گیا تو دنیا کی تمام   دولتیں  جمع کر کے بھی اس کو  واپس نہیں لا سکتے

مشہور کہاوت ہے:وقت اور لہر کسی کا انتظار نہیں کرتے۔

وقت کے بہاؤکوکوئی روک نہیں  سکتا۔وقت ایک بار گزر جائے تو اس کو واپس لاناناممکن بن جاتا ہےاور  اس  کی قدر کا انداز ہ تب ہوتا ہے جب یہ گزر جاتا ہے

حدیث نبوی ﷺ ہے کہ: آپﷺنے فرمایا کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو-

1۔  بڑھاپے سے پہلے جوانی کو

 2۔ بیماری سے پہلے صحت کو

3۔ محتاجی سے پہلے تونگری کو

4۔  مصروفیت سے پہلے فراغت کو

 5۔   موت سے پہلے زندگی کو

اس لئے ہمیں بھی بحیثیت مسلمان مذکورہ بالا تمام باتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے زندگی بسر کرنی چاہئےتاکہ ہماری دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنور جائے۔ زندگی کا  ایک لمحہ ہزاروں  و لاکھوں قیمتی   خزانوں  سے بھی زیادہ  کی اہمیت کے حامل ہےاس کے سامنےباقی تمام چیزیں کسی خاک کی بھی اہمیت  نہیں رکھتی۔ وقت کی قدر کرنے کا قدرت کا نظام  کو دیکھ لے جیسا کہ سورج  کا طلوع ہونے کا وقت  ایک مقرر ہے غروب ہونے کا بھی ۔دن و رات کا بھی وقت ہے۔اس میں دیکھا جائے تو سب اپنے وقت کے پابند ہیں۔  اس بات  سے اندازہ لگایا جائے کہ وقت کی پابندی کی کیا قدروقیمت ہے۔اگر قدرت کا نظام میں کسی قسم کا بگاڑ آجائے تو قیامت برپا ہو جائے گی۔ دنیا کا نظام بگڑجائے گا۔باری تعالیٰ نے دنیا کا  نظام کو وقت کی پابندی کے ساتھ چلایا ہےوقت کی پابندی ہر انسان ،قوم اور ملک کو کرنی چاہے ۔جو قوم وقت کی قدر نہیں کرتی وہ دنیا میں گم ہوجاتی ہے اور جو قوم وقت کی قدر کرتی ہےوہ دنیا میں ایک خاص مقام رکھتی ہےباقی تمام اقوام اس کے پابند ہو جاتی ہیں۔

مفہوم حدیث پاکﷺہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اہل جنت  کو کسی چیز کا بھی افسوس نہیں ہوگا سوائےاس

ساعت(یعنی گھڑی)کے جو  دنیا میں  اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر گزر گئی۔

جہاں مذکورہ بالا حدیث ہمیں اللہ کی اطاعت  کی طرف مائل کر رہی ہے اور ہمیں یہ بتلا رہی ہے کہ ہم ہمہ وقت اللہ کی یاد میں مشگول رہیں وہیں وقت کی پابندی کرنے کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے۔ اس کو ہم آسان الفاظ میں اس مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ایک طالب علم اگر وقت پر آتا ہے سبق یاد کرتا ہے اور اپنے تمام کام وقت پر سرانجام دیتا ہےاور دوسرا وہ جو لیٹ آتا ہے کچھ یاد نہیں کرتا کیسے وہ کامیاب ہوگا۔آج کا کام کل پر اور کل کا اگلے دن پر اس طرح کام زیادہ ہو جاتا ہےپھر وہ کام رہ جاتا ہے۔اس کی سستی اور غافل پن کی وجہ سے نقصان ہوجاتا ہے وہی شخص وقت کی کمی کی شکایت کرتا رہتا ہےپھر اس کے پاس افسوس کے سوا کچھ  نہیں ہوگا ۔بچپن ہی سے انسان کو وقت کا پابند ہوجانا چاہیے۔ تمام کام اپنے وقت مقرر پر ہوجائےتو انسان کو کبھی بھی مایوسی  کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ایک طالب علم اگر وقت پر امتحان دینے کے لئے آگیا توکامیاب ہوجائے گااس کی کامیابی پر شہرت،عزت اور سب سے بڑھ کےاس کا کردار سب اہمیت  کے حامل ہوجاتے ہیں۔

وقت دانا  اور نادان کے لئے برابر ہے دانا جانتا ہے کہ اس کو  کیسے اور کہاں استعمال کرنا ہے وہ اس   میں مصروف  رہ کر اس کا فائدہ اٹھاتا ہے۔اس وجہ سے دانا  اپنی یادیں چھوڑجاتے ہیں اور قیامت  تک  ان کا نام زندہ رہتا ہے۔ تاریخ ایسے ناموں سے بھری پڑی ہے اور نادان لوگ اپنے وقت کا ضیاع کرتے ہیں جس کی بدولت  تاریخ کے حصوں سے مٹ جاتے  ہیں ۔ایسے ہی لوگ   وقت کا رونا  روتے ہیں کہ وقت نے ایسا کیا ہے ویسا کیا۔وہ ہمیشہ زمانے  کی ٹھوکر کھاتے ہیں۔  وقت  اپنی قدر نہ کرنے  والے کو ہمیشہ اپنی  یاد دلاتا رہتا ہے۔بس اس کے پاس مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔وقت ایک لازوال دولت ہے جس کا خلا دنیا کی کوئی بھی چیز نہیں کر سکتی۔ اس لئے ہمیں بھی چاہیے کہ وقت کی پابندی کریں اور زندگی کے تمام امور کو ان کے مقررہ وقت پر انجام دیں تاکہ دنیاوی رسوائی سے بچ سکیں۔