Fear in human

19
Little boy suffering from child abuse curled up on the sofa with his teddy.

 خوف کی تعریف:

خوف ایک منفی جذبہ ہے جو کسی خطرے، نقصان یا تکلیف کے احساس سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک فطری ردعمل ہے جو ہمیں خطرات سے بچنے میں مدد دیتا ہے، لیکن اگر یہ ضرورت سے زیادہ ہو تو زندگی مشکل بنا سکتا ہے۔

 روزمرہ زندگی کی مثالیں:

امتحان کا خوف:  بہت سے طالب علم امتحان کے نتائج یا ناکامی کے خیال سے پریشان ہو جاتے ہیں۔

اندھیرے کا خوف:  کچھ بچے (اور بڑے بھی) اندھیرے میں تنہا رہنے سے ڈرتے ہیں۔

لوگوں کے سامنے بولنے کا خوف:  تقریر یا میٹنگ میں بات کرتے وقت گھبراہٹ محسوس ہونا۔

نئے کام کا خوف:  نوکری، شادی یا نئی جگہ جانے جیسی تبدیلیوں سے خوفزدہ ہونا۔

خوف ایک عام احساس ہے، لیکن اس پر قابو پا کر ہی ہم پرسکون اور کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔ مثبت سوچ اور عمل سے خوف کم کیا جا سکتا ہے۔

 خوف کی تعریف قرآن و حدیث کی روشنی میں:

خوف ایک فطری جذبہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر رکھا ہے تاکہ وہ خطرات سے محتاط رہے۔ لیکن اسلام میں  خوف کی دو اقسام  ہیں:

الف.  مثبت خوف (خوفِ خدا):  یہ اللہ کی ناراضگی اور آخرت کے عذاب کا ڈر ہے، جو انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے۔

ب:  منفی خوف (بے جا خوف):  یہ دنیاوی چیزوں، موت، فقر یا لوگوں کا خوف ہے، جو ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔

    الف۔ قرآن پاک میں خوف کی تعلیمات:

اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو صرف اپنے خوف اور امید کے ساتھ زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے:

  “اور صرف مجھ سے ہی ڈرو۔”  (البقرہ: 40)

 مثبت خوف کی مثال:

     “اور جو اپنے رب کے خوف سے ڈرتے رہیں۔”  (الرعد: 21)

یہ خوفِ الٰہی انسان کو نیکی پر آمادہ کرتا ہے۔

 منفی خوف سے منع:

     “شیطان تمہیں مفلسی کے خوف سے ڈرائے، تمہیں بخل پر اکسائے۔”  (البقرہ: 268)

یعنی اللہ پر بھروسہ رکھو، دنیا کے خوف میں گناہ نہ کرو۔

    ب۔ احادیث میں خوف کے بارے میں رہنمائی

 خوفِ خدا کی فضیلت:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

     “جس نے اللہ سے ڈرا، اللہ اسے ہر پریشانی سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو۔” (ابن ماجہ)

بے جا خوف سے بچنے کی تلقین:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

     “مومن کا دل کبھی خوف اور کبھی امید کے درمیان رہتا ہے۔”  (ترمذی)

یعنی اللہ کے عذاب سے ڈرو، لیکن اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔

 موت اور فقر کا خوف:

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا سکھائی:

     “اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بے کاری اور کسل مندی سے، اور بزدلی اور بخل سے، اور فقر کے خوف سے۔”  (بخاری)

    عملی مشورے:

خوفِ خدا اپنائیں: گناہوں سے بچیں اور اللہ کی رحمت پر بھروسہ رکھیں۔

. بے جا خوف کو ترک کریں:  موت، فقر یا لوگوں کے خوف کو اللہ پر توکل سے دور کریں۔

. دعا سے مدد لیں:  نبی ﷺ کی سکھائی ہوئی دعائیں پڑھیں، جیسے:

     “اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ”

اے اللہ! میں پریشانی، غم، کمزوری، سستی، بخل اور بزدلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔

حقیقی مومن صرف اللہ سے ڈرتا ہے، جبکہ دنیا کے خوفوں کو اللہ پر بھروسہ کر کے ختم کر دیتا ہے۔

    خوف کی مثالیں اور معاشرے پر اثرات (قرآن و حدیث کی روشنی میں)

    روزمرہ زندگی کی مثالیں:

بچوں کا خوف:

کچھ بچے اساتذہ یا والدین کے ڈانٹ کے خوف سے جھوٹ بول لیتے ہیں۔

حل:  بچوں کو سزا کے بجائے پیار سے سمجھایا جائے، تاکہ وہ ڈر کے بجائے سچ بولنے کی ہمت کریں۔

نوجوانوں کا مستقبل کا خوف:

کیریئر، روزگار یا شادی کے خوف سے ذہنی دباؤ کا شکار ہونا۔

حل:  اللہ پر توکل کرنا، محنت کرنا اور یقین رکھنا کہ اللہ بہترین رزق دینے والا ہے۔

:معاشرتی دباؤ کا خوف:

لوگ “لوگ کیا کہیں گے؟” کے خوف سے اچھے کاموں (جیسے دین سیکھنا، صدقہ دینا) سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

حل:  حدیث میں آیا ہے کہ  “لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں اللہ کی ناراضگی مول نہ لو۔”  (بیہقی)

 : بیماری یا موت کا خوف:

کچھ لوگ معمولی بیماری میں گھبرا جاتے ہیں یا موت کے خوف سے زندگی سے لطف نہیں اٹھاتے۔

حل:  یاد رکھیں کہ  “موت ایک مقررہ وقت پر آنی ہے، اس سے بھاگنا ممکن نہیں۔”  (القرآن)

    عملی اقدامات:

خوفِ خدا کو فروغ دیں:  نماز، تلاوت اور ذکرِ الٰہی سے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہوگا، جو برائیوں سے روکے گا۔

بے جا خوف کو دور کریں:  اللہ پر بھروسہ رکھیں، کیونکہ حدیث میں ہے:  “اگر تم اللہ پر پورا بھروسہ کرو، تو وہ تمہیں ایسے رزق دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے۔”  (ترمذی)

معاشرتی اصلاح کریں:  دوسروں کو بھی خوفِ الٰہی سکھائیں اور دنیاوی خوفوں سے نکالنے میں مدد دیں۔

المختصرخوف اگر اللہ کا ہو تو یہ نجات دلاتا ہے، اور اگر دنیا کا ہو تو یہ تباہی لاتا ہے۔ ایک پاکیزہ معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ صرف اللہ سے ڈریں، نہ کہ دنیا کے خوفوں میں جئیں۔